Add To collaction

لمبی رات

قصہء لمبی رات نہ چھیڑے

کوئی بھی انکی بات نہ چھیڑے۔۔

بعدِ مدت سکون پایا ہے

اب کوئی دل کے تار نہ چھیڑے۔۔

میرا گھر لٹ گیا تھا جس پل میں

کوئی اس پل کی بات نہ چھیڑے۔۔

نرم لہجہ غزالی آنکھوں کی

کوئی تعریف یار نہ چھیڑے۔۔

وہ حسینوں جمیل چہرہ بھی

کوئی اس تک کی بات نہ چھیڑے۔۔

وہ ستمبر اکیس وان دن تھا

چل رھا سال دو ہزار بیس تھا

دن تھا  يوم الأحد کا  حالی

دن تھا انگار رات تھی کالی

دن تو گزرا وہ جیسے بھی گزرا

رات نے مجھ میں کر لیا گھر تھا

لگ رہا تھا کی جان گذریگی

پر نہیں اب یہ رات گزریگی

میرے دل میں تھی چھائی کالی گھٹا

چاروں جانب جو کچھ تھا، سنّاٹا۔۔

میرے دل میں تھا کاش مر جاؤں

زندگی انکی نام کر جاؤں

عمر میری جو ہے لگے اُسکوں

کام ایسا کچھ آج کر جاؤں۔۔

دن بہ دن غم کے گھونٹ پیتا رہا

ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے جیتا رہا
ہوگی اب وہ کسی کی باہوں میں
یاد کر کر کے عشق پیتا رہا۔۔

بس کرو حالی اب نہ کچھ کہنا
سارا غم تمکو ہی ہے جب سہنا۔۔۔
    
      ✍️ محی الدیں خان (حالی)


   19
4 Comments

Angela

07-Oct-2021 03:36 PM

Good👍👍

Reply

Mohayeeuddin Khan

10-Oct-2021 01:23 PM

Shukriya ❤️

Reply

Seema Priyadarshini sahay

30-Sep-2021 05:59 PM

Good

Reply

Dr. SAGHEER AHMAD SIDDIQUI

29-Sep-2021 07:47 PM

Nice

Reply